اذان کے کچھ ضروری مسائل
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
اذان
کے کچھ ضروری مسائل
۔┄┅═══════✦✦✦════════┅┄
✍تحریر : مسزانصاری
اذان کا جواب دینا ھر مرد و عورت ' پاک ناپاک کے لیے مستحب ھے ، یہ حکم عام ہے اس میں مرد و زن کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ عورت کے لیے ایامِ مخصوصہ میں بھی اذان کا جواب دینا جائز ہے ۔ اور اذان سن کر جواب دینا اذان کا حق ہے ، لہٰذا اذان سنتے وقت مؤذن جو کلمات ادا کرے گا اس کے سننے پر وہی کلمات دہرائے جائیں گے سوائے (الحَيْعَلَتَين ) کے ،یعنی سوائے حيَّ على الصلاة اور حيَّ على الفلاح کے ۔ ان کلمات کو سن کر ( لاٙ حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ ) کہنا ہوگا
نبی کریمﷺ نے فرمایا :
إِذَا سَمِعْتُمْ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ.((صحيح مسلم384/11)
''جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جس
طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو'جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ
تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلے کا سوال
کرو۔ وسیلہ جنت میں ایک (ایسا بلند وبالا اور ارفع واعلیٰ) مقام ہے۔جس پر بندگان
الٰہی میں سے صرف ایک انسان ہی فائز ہوگا۔اور امید ہے کہ یہ شرف مجھے حاصل ہوگا۔جس
شخص نے میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ کی دعا ء کی اس کے لئے میری شفاعت حلال
ہوجائےگی۔''
اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قال حين يسمع النداء اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة ".(صحیح بخاری حدیث نمبر 614)
''جو شخص اذان سن کر یہ کہے اللهم رب هذه
الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا
الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔''
(ترجمہ دعا۔''اے اللہ ! اس دعوت کامل اور کھڑی ہونے والی
نماز کے مالک تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرمادے۔اور
ان کو اس مقام محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔'')
✦ وسیلہ کی تعریف خود نبیﷺ نےفرمادی ہےکہ
وہ جنت کی منزلوں میں سے ایک منزل ہے جوسب سےاونچی اورسب سے بڑی ہے۔
اورفضیلت یاتووسیلہ ہی کےلیے بطور وضاحت آیا ہےیا اس
سےمراد ہےوہ اونچا درجہ جوتمام مخلوقات میں سے صرف آپﷺ ہی کوحاصل ہوگا۔
اوراس دعا میں تیسری چیز کابھی تذکرہ ہے اور وہ ہےآپﷺ
کےلیے مقام محمود مانگتا اور اس سےمراد وہ مقام ہےجس کی جنتی بھی تعریف کی جائے کم
ہے۔
اوریہ مقام ہےمقام شفاعت اور یہ کہ رسول اللہﷺ اپنی امت
کےان تمام لوگوں کےلیے شفاعت کریں گے جوشرک کےمرتکب نہیں ہوئےہوں گے۔
دیکھیے : فتاویٰ صراط مستقیم/نماز کےمسائل/صفحہ:288
✦ جب مئوذن حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ اور حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کہے تو جواب میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہی
فعن حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ
أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ
اللَّهُ أَكْبَرُ فَقَالَ أَحَدُكُمْ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ
قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا
اللَّهُ ثُمَّ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَشْهَدُ
أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ قَالَ لا
حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ ثُمَّ قَالَ حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ قَالَ لا
حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ
قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ قَالَ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ
قَالَ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ )
رواه مسلم في صحيحه / 578 ، وأبو داوود في سننه / 443
صحيح مسلم ،كتاب الصلاة ح850
✦ اذان دیتے ہوئے اپنی انگلی کو کان کے سوراخ میں داخل کرنا چاہیے ۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اسی طرح آذان دیتے تھے ۔
رَأَيْتُ بِلَالًا يُؤَذِّنُ وَيَدُورُ وَيُتْبِعُ فَاهُ هَا هُنَا
وَهَا هُنَا وَإِصْبَعَاهُ فِي أُذُنَيْهِ
سیدنا ابو جحیفہ وہب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا وہ اپنا چہرہ دائیں
بائیں گھماتے تھے اور انکی انگیاں انکے کانوں میں تھیں ۔
جامع ترمذی ابواب الصلاۃ باب ما جاء فی ادخال الابع فی
الاذن عند الاذان ح ۱۹۷
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب مؤذن «اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ» کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ دہرائے اور جب وہ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» اور «أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ» کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ کہے۔ اور جب مؤذن «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» کہے تو سننے والا «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہے۔ پھر مؤذن جب «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کہے تو سننے والے کو «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہنا چاہئیے۔ اس کے بعد مؤذن جب «اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ» اور «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» کہے تو سننے والے کو بھی یہی الفاظ دھرانے چاہئیں اور جب سننے والے نے اس طرح خلوص اور دل سے یقین رکھ کر کہا تو وہ جنت میں داخل ہوا۔“ (بشرطیکہ ارکان اسلام کا بھی پابند ہو)۔
✦ " الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ
النَّوْمِ "کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں کہے جائیں
رسول اللہﷺ نے حضرت بلال ؓ سے فرمایاتھا :
‘‘جب تم صبح کی پہلی اذان دو تو اس میں "الصلوٰة
خیر من النوم"کہو۔’’
(مسند احمد،ص:۴۰۸،ج۴)
کچھ مکاتبِ فکر کے نزدیک ان کلمات کے جواب میں صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہا جائے گا۔ جبکہ یہ کلمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً ثابت نہیں ہیں۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لا أصل لھا ”ان کلمات کی کوئی اصل نہیں۔ “ ( التلخیص
الحبیر لا بن حجر 211/1)
مولوی عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ اور حَيَّ عَلَى
الْفَلَاحِ کے جواب میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہے اور باقی
الفاظ کے جواب میں وہی الفاظ کہے جو مؤذن سے سنے، یہ احادیث سے ثابت ہے۔ البتہ
الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کے جواب میں کوئی خاص کلمات کہنا ثابت
نہیں ہے۔ قُولْوا مِثْلَ مَا یَقُولْ (اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہے) کا تقاضہ یہ ہے
کہ جواب دینے والا بھی الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کہے اور اس سے اپنے
نفس کو خطاب کرے اور حنفیہ شافعیہ کی کتابوں میں جو یہ لکھا ہے کہ اس کے جواب میں
صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔ “
( حاشیہ حصن حصین از عاشق الٰھی دیوبندی : 255 )
✦ یاد رہے کہ عرف عام میں مستعمل الفاظ " اذان تہجد " کو اذانِ تہجد کہنا بھی محل نظر ہے بلکہ اسے اذان سحری کہنا چاہیے ۔
✦ جب انسان جمعہ کے دن مسجدمیں اس وقت داخل ہو جب مؤذن دوسری اذان دے رہا ہو، تو وہ تحیۃ المسجد پڑھے اور مؤذن کا جواب دینے میں مشغول نہ ہوتا کہ وہ خطبہ سننے کے لیے فارغ ہو جائے کیونکہ خطبہ کا سننا واجب ہے اور مؤذن کی اذان کا جواب دینا سنت ہے اور سنت واجب کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
✦ بہت ساری اذانیں سنی جائیں تو صرف ایک کا جواب دیا جاۓ.. جو پہلے سنی جاۓ اسی کا جواب دے لیا جاۓ
✦ اکیلا نماز پڑھنے والا اذان و اقامت کہہ سکتا ہے۔ صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
يَعْجَبُ رَبُّكُمْ مِنْ رَاعِي غَنَمٍ فِي رَأْسِ شَظِيَّةٍ بِجَبَلٍ، يُؤَذِّنُ بِالصَّلَاةِ، وَيُصَلِّي، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا يُؤَذِّنُ، وَيُقِيمُ الصَّلَاةَ، يَخَافُ مِنِّي، قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي وَأَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ
'' تمہارا رب ایسے چراوا ہے سے خوش ہوتا
ہے جو پہاڑ کی چھوٹی پر اپنا ریوڑ چراتا ہے اور نماز کیلئے اذان کہتا ہے اور نماز
ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرے اس بندے کی طر ف دیکھو جو اذان و
اقامت نماز کیلئے مجھ سے ڈرتے ہوئے کہتا ہے میں نے اپنے اس بندے کو معاف کردیا اور
میں نے اسے جنت میں داخل کر دیا ہے
''
( سنن ابو داؤد و باب الاذان فی السفر۲/۴٤(۱۲۰۳)
✦ علماء کے صحیح قول کے مطابق عورت کے لئے آذان نہیں ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اور حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عہد میں کبھی کسی عورت نے اذان نہیں کہی تھی۔ (دیکھیے :فتاویٰ اسلامیہ :جلد1/صفحہ331)
✦ مؤذن کے لئے یہ سنت ہے کہ وہ حیعلتین کے
وقت دایئں اور بایئں منہ کرے تاکہ اس کے ان دونوں اطراف او ر پیچھے کے لوگ بھی
آواز کو سن سکیں ۔لیکن شاید یہ اس صورت می ہے ۔جب اذان مینارہ پر دی جارہی ہو
اورلاؤڈ اسپیکر موجود نہ ہو جیساکہ زمانہ ماضی میں معمول تھا ۔لیکن میری رائے میں
لاؤڈ اسپیکر پراذان کی صورت میں شاید اس کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ سپیکر کا مایئک
ہی مؤذن ہے ۔آدمی اگر اس کے قریب ہوتو اس کی آواز قوی اور اگر اس س دور ہو تو آواز
ضعیف ہوگی اور مؤذن کے لئے حکم یہ ہے کہ اس کی آواز بلند اور طاقتور ہو!(شیخ ابن
جبرین ؒ)
دیکھیے:فتاویٰ اسلامیہ:جلد1/صفحہ:338
✦ مصلحت کا تقاضا ہے کہ جواذان کہے وہی
تکبیر کہے تاکہ جماعتی نظم میں خرابی نہ آئے شرعی اعتبار سے دونوں طرح جائز ہے ۔
چونکہ اصل اباحت ہے، اس لیے مؤذن کے علاوہ کوئی دوسرا شخص بھی تکبیر کہہ سکتا ہے
اگر مؤذن موجود نہ ہوتو اس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ کوئی بھی دوسرا اقامت
کہہ سکتا ہے لیکن اگر موجود ہے تو اسے تکبیر کہنے کا موقع دیا جائے خوا مخواہ ایسی
باتوں کو بنیاد بنا کر اختلاف کی خلیج کو وسیع نہ کیا جائے( الشیخ
عبدالستارالحمادحفظہ اللہ)
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد3/صفحہ92
✦ اذان ذکراللہ ہے اس لیے مستحب ہے کہ
اذان دینے کے لیے وضو کر لیا جائے ۔ تاہم اذان کو وضو سے مشروط کرنا کسی روایت سے
ثابت نہیں ہے وضو کو اذان کے لیے شرط قرار دینا محل نظر ہے۔ البتہ ایک حدیث حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
" اذان صرف باوضو شخص ہی دے ۔"
بیہقی ،ص:397۔ج1
لیکن یہ حدیث سند کے اعتبار سے قابل حجت نہیں ہے۔
دیکھیے : ارواءالغلیل ،ص:240،ج1
✦ بلا شبہ حدیث میں ہے کہ مؤذن کو اذان
دینے پر اجرت نہیں لینی چاہیے چنانچہ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ایسے شخص کو مؤذن
بناؤ جو اذان پر اجرت نہ لے۔"( ابو داؤدالصلوٰۃ:631)
ہمارا رجحان یہ ہے کہ ایسا مؤذن مقرر کیا جائے جو اذان
کہنے پر اجرت نہ لیتا ہو، جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے لیکن اگر ایسا مؤذن
میسر نہ ہوتا پھر اجرت پر مؤذن رکھنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔پھر ہمارے ہاں مؤذن
صرف اذان ہی نہیں دیتے بلکہ اور بہت سے کام سر انجام دیتے ہیں بہر حال اوقات نماز
سے آگا ہی کے لیے مؤذن کی تقرری انتہائی ضروری ہے اگر مؤذن کا کوئی اور ذریعہ معاش
نہیں ہے تو اسکے
اجرت لینے پر کوئی حرج نہیں ہے، اگر صاحب حیثیت ہے تو
اذان دینے پر اجرت لینا درست نہیں ہے
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد3/صفحہ:93
✦ فوت شدہ نمازوں کے لیے اذان دی جائے اور
ہر نماز سے پہلے اقامت کہی جائے جیسا کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی ظہر، عصر اور مغرب فوت ہو گئیں تو آپ نے پہلے اذان دلوائی پھر ہر
نماز کے لئے اقامت کا اہتمام کیا۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے حکم سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی
نماز پڑھائی پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے عصر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی
تو آپ نے مغرب پڑھائی اور پھر اقامت کہی تو آپ نے نماز عشاء پڑھائی۔
(ترمذی،الصلوٰۃ:179)
بہرحال اگر انسان ایسی جگہ ہو جہاں اذان نہ کہی گئی ہو
تو اذان دینے کا اہتمام کیا جائے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اذان کہنا ضروری
نہیں البتہ ہر نماز کے لیے اقامت ضرور کہی جائے۔
دیکھیے :فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد:4/صفحہ:88
✦ اذان قبلہ رخ ہو کر دی جائے گی ۔ قبلہ
کی طرف رخ کرنا اجماع سے ثابت ہے
دلائل
:
امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
"اجمع اهل العلم على ان من السنة أن تستقبل القبلة
بالأذان"
"اس پر علماء کا اجماع ہے کہ اذان کہتے وقت قبلہ رخ
ہونا سنت ہے۔(الاوسط 3/28)
نیز فرماتے ہیں :
"وأجمعوا على أن من السنة أن تستقبل القبلة بالأذان"
اور اس پر اجماع ہے کہ اذان کہتے وقت قبلہ رخ ہونا چاہیے
۔(الاجماع:ص7،فقرہ:39) نیزدیکھئے موسوعۃ الاجماع فی الفقہ الاسلامی (1/93)
عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کیا
قبلہ رخ ہوکراذان کہنی چاہیے؟توانھوں نے فرمایا:جی ہاں(مصنف عبدالرزاق 1/465ح1802
وسندہ صحیح)
محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"إذا اذن المؤذن استقبل القبلة"
جب مؤذن اذان کہے تو اسے قبلہ رخ ہونا چاہیے۔(مصنف
عبدالرزاق:1/466 ح1804وسندہ صحیح)
سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے
مؤذن نے قبلہ رخ ہوکر اذان دی۔
(مسند السراج:61 وسندہ حسن وقال الشیخ ارشاد الحق
الاثری:"اسنادہ صحیح")
✦ عرف عام میں مشہور ہے کہ دورانِ اذان بیت الخلاء نہیں جانا چاہیے ۔ یہ بے دلیل اور غیر ثابت بات ہے ۔قضائے حاجت ایک اضطراری کیفیت ہے جس کا کوئی وقت متعین نہیں ہوتا جب قضائے حاجت کے باعث نماز کو مؤخر کیا جا سکتا ہے، تو بوقت ِ اذان بیت الخلاء جانے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔
✦ مخنث بھی اذان کہہ سکتا ہے، بشرطیکہ اس
کی علامات زیادہ تر مَردوں کے مشابہ ہوں۔ اس کے باوجود اَولیٰ یہ ہے کہ غیر مخنث
اذان دے۔ حدیث میں ہے :
دَع مَا یُرِیبُكَ اِلٰی مَا لَا یُرِیبُكَ ‘
صحیح البخاری،بَابُ تَفسِیرِ المُشَبَّهَاتِ،
( سنن الترمذی،رقم:۲۵۱۸، سنن النسائی،بَابُ
الحَثُّ عَلَی تَرکِ الشُّبُهَاتِ،رقم:۵۷۱۱)
یعنی شکی شئے کو چھوڑ کر غیرشکی کو اختیار کرنا چاہیے۔
دیکھیے : فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی/کتاب
الصلوٰۃ/صفحہ:218
۔✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment